Iztirab

Iztirab

دود دِل سے ہے یہ تاریکی میرے غم خانہ میں

 دود دِل سے ہے یہ تاریکی میرے غم خانہ میں 
شمع ہے اِک سوزن گم گشتہ اِس کاشانہ میں 
میں ہوں وُہ خشت کہن مدت سے اِس ویرانے میں 
برسوں مسجد میں رہا برسوں رہا مے خانہ میں 
میں وہ کیفی ہوں کے پانی ہو تُو بن جائے شراب 
جوش کیفیت سے مری خاک کہ پیمانہ میں 
برق خرمن سوز دانائی ہے نافہمی تیری 
ورنہ کیا کیا لہلہاتے کھیت ہیں ہر دانہ میں 
کس نزاکت سے ہے دیکھو اتحاد حُسن و عشق 
زلف واں شانے نے کھینچی درد ہے یاں شانہ میں 
وحشت و ناآشنائی مستی و بیگانگی 
یا تیری آنکھوں میں دیکھی یا تیرے دیوانہ میں 
عشق کو نشوونما منظور ہے کب ورنہ سبز 
تخم اشک شمع ہو خاکستر پروانہ میں 
ہوش کا دعویٰ ہے بے ہوشوں کو زیر آسماں 
خم نشیں مثل فلاطوں سب ہیں اِس خم خانہ میں 
پتھروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے ناحق سیل آب 
پُوچھو کیا لے جائے گا آ کر میرے غم خانہ میں 
ایک پتھر پوجنے کو شیخ جی کعبے گئے 
ذوقؔ ہر بت قابل بوسہ ہے اِس بت خانہ میں 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *