Iztirab

Iztirab

گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں

گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں 
بشر کہ ہیں جُو مبصر بشر کو دیکھتے ہیں 
نہ خوب و زشت نہ عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں 
یہ چیز کیا ہے بشر ہم بشر کو دیکھتے ہیں 
وُہ دیکھیں بزم میں پہلے کدھر کو دیکھتے ہیں 
مُحبت آج تیرے ہم اثر کو دیکھتے ہیں 
وُہ اپنی برش تیغ نظر کو دیکھتے ہیں 
ہم ان کو دیکھتے ہیں اُور جگر کو دیکھتے ہیں 
جب اپنے گریہ و سوز جگر کو دیکھتے ہیں 
سلگتی آگ میں ہم خشک و تر کو دیکھتے ہیں 
رفیق جب میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں 
تُو چارہ گر انہیں وُہ چارہ گر کو دیکھتے ہیں 
نہ طمطراق کو نے کر و فر کو دیکھتے ہیں 
ہم آدمی کہ صفات و سیر کو دیکھتے ہیں 
جُو رات خواب میں اس فتنہ گر کو دیکھتے ہیں 
نہ پُوچھ ہم جُو قیامت سحر کو دیکھتے ہیں 
وُہ روز ہم کو گزرتا ہے جیسے عید کا دن 
کبھی جُو شکل تمہاری سحر کو دیکھتے ہیں 
جہاں کہ آئینوں سے دِل کا آئینہ ہے جدا 
اس آئینے میں ہم آئینہ گر کو دیکھتے ہیں 
بنا کہ آئینہ دیکھے ہے پہلے آئینہ گر 
.ہنر ور اپنے ہی عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *