Iztirab

Iztirab

جب چلا وُہ مُجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر

جب چلا وُہ مُجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر 
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر 
میں وُہ مجنُوں ہوں جُو نکلوں کنج زنداں چھوڑ کر 
سیب جنت تک نہ کھاؤں سنگ طفلاں چھوڑ کر 
پیوے مرا ہی لہو مانی جُو لب اِس شوخ کے 
کھینچے تُو شنگرف سے خون شہیداں چھوڑ کر 
میں ہوں وُہ گمنام جب دفتر میں نام آیا میرا 
رہ گیا بس منشی قدرت جگہ واں چھوڑ کر 
سایۂ سرو چمن تُجھ بن ڈراتا ہے مُجھے 
سانپ سا پانی میں اے سرو خراماں چھوڑ کر 
ہو گیا طفلی ہی سے دِل میں ترازو تیر عشق 
ھاگے ہیں مکتب سے ہم اوراق میزاں چھوڑ کر 
اہل جوہر کو وطن میں رہنے دیتا گر فلک 
لعل کیوں اِس رنگ سے آتا بدخشاں چھوڑ کر 
شُوق ہے اس کو بھی طرز نالۂ عشاق سے 
دم بدم چھیڑے ہے منہ سے دود قلیاں چھوڑ کر 
دِل تُو لگتے ہی لگے گا حوریان عدن سے 
باغ ہستی سے چلا ہوں ہائے پریاں چھوڑ کر 
گھر سے بھی واقف نہیں اِس کہ کے جس کہ واسطے 
بیٹھے ہیں گھر بار ہم سب خانہ ویراں چھوڑ کر 
وصل میں گر ہووے مُجھ کو رویت ماہ رجب 
روئے جاناں ہی کو دیکھوں میں تُو قرآں چھوڑ کر 
اِن دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن 
.کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *