Iztirab

Iztirab

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے 
نہ دوا یاد رہے اُور نہ دعا یاد رہے 
تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے 
نہ خُدائی کی ہو پروا نہ خدا یاد رہے 
لوٹتے سیکڑوں نخچیر ہیں کیا یاد رہے 
چیر دو سینے میں دِل کو کے پتا یاد رہے 
رات کا وعدہ ہے بندے سے اگر بندہ نواز 
بند میں دے لو گرہ تا کہ ذرا یاد رہے 
قاصد عاشق سودا زدہ کیا لائے جواب 
جب نہ معلوم ہو گھر اُور نہ پتا یاد رہے 
دیکھ بھی لینا ہمیں راہ میں اُور کیوں صاحب 
ہم سے منہ پھیر کہ جانا یہ بھلا یاد رہے 
ترے مدہوش سے کیا ہوش و خرد کی ہو اُمید 
رات کا بھی نہ جسے کھایا ہوا یاد رہے 
کشتۂ ناز کی گردن پہ چھری پھیرو جب 
کاش اِس وقت تمہیں نام خُدا یاد رہے 
خاک برباد نہ کرنا میری اِس کوچے میں 
تجھ سے کہہ دیتا ہوں میں باد صبا یاد رہے 
گور تک آئے تُو چھاتی پہ قدم بھی رکھ دو 
کوئی بیدل ادھر آئے تّو پتا یاد رہے 
ترا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ 
خلد میں بھی تیرے کوچے کی ہوا یاد رہے 
باز آ جائیں جفا سے جُو کبھی آپ تُو پھر 
یاد عاشق کو نہ کیجے گا بھلا یاد رہے 
داغ دِل پر میرے پھاہا نہیں ہے انگارا 
چارہ گر لیجو نہ چٹکی سے اٹھا یاد رہے 
زخم دِل بولے میرے دِل کہ نمک خواروں سے 
لو بھلا کچھ تُو مُحبت کا مزا یاد رہے 
حضرت عشق کہ مکتب میں ہے تعلیم کچھ اور 
یاں لکھا یاد رہے اُور نہ پڑھا یاد رہے 
گر حقیقت میں ہے رہنا تُو نہ رکھ خود بینی 
بھولے بندہ جُو خودی کو تُو خدا یاد رہے 
عالم حُسن خدائی ہے بتوں کی اے ذوقؔ 
.چل کہ بت خانے میں بیٹھو کے خدا یاد رہے 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *