Iztirab

Iztirab

اب تُو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کے مر جائیں گے

اب تُو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کے مر جائیں گے 
مر کہ بھی چین نہ پایا تُو کدھر جائیں گے 
تم نے ٹھہرائی اگر غیر کہ گھر جانے کی 
تُو ارادے یہاں کچھ اُور ٹھہر جائیں گے 
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں 
پر میرے زخم نہیں ایسے کے بھر جائیں گے 
پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم 
پہلے جب تک نہ دُو عالم سے گزر جائیں گے 
شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں 
پر مُجھے ڈر ہے کے وُہ دیکھ کہ ڈر جائیں گے 
ہم نہیں وُہ جُو کریں خون کا دعویٰ تُجھ پر 
بلکہ پُوچھے گا خُدا بھی تُو مکر جائیں گے 
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی 
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے 
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز 
ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے 
سامنے چشم گہر بار کہ کہہ دو دریا 
چڑھ کہ گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے 
لائے جُو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں 
اُور اگر کچھ نہیں دو پھول تُو دھر جائیں گے 
رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم 
مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے 
ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کے نہیں 
یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے 
ذوقؔ جُو مدرسے کہ بگڑے ہوئے ہیں ملا 
.ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *