کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا اس آہ میں تُو ہم نے کچھ بھی اثر نہ دیکھا کیا کیا بہاریں آئیں کیا کیا درخت پھولے نخل دُعا کو لیکن میں بارور نہ دیکھا ہرگز ہوا نہ یارو وُہ شُوخ یار اپنا زیں پیش ورنہ ہم نے کیا کیا کے کر نہ دیکھا رہتے ہیں کیا بھلا واں آفت زدے ہی سارے اس کوچے میں کسی کا آباد گھر نہ دیکھا پہنچا گلی تک اس کہ آگے کھڑا رہا میں آگے قدم کہ رکھتے پھر نامہ بر نہ دیکھا دو پہر تک اس کہ آگے کھڑا رہا میں پر اس نے ضد کہ مارے بھر کر نظر نہ دیکھا کیا فائدہ رکھے ہے بس اب زیادہ مت رو رونا تیرا کسی نے اے چشم تر نہ دیکھا کل یار کی گلی میں ڈھونڈا جُو مصحفیؔ کو .اِک لاش تو پڑی تھی پر اس کا سر نہ دیکھا
مصحفی غلام ہمدانی