کھڑا نہ سُن کہ صدا میری ایک یار رہا میں رہروان عدم کو بہت پکار رہا قفس سے چھوڑے ہے اب مُجھ کو کیا تُو اے صیاد چمن کہ بیچ کہاں موسم بہار رہا پس از وفات بھی اپنی ہوئیں نہ آنکھیں بند زبس کے ترے ہی آنے کا انتظار رہا خُدا کہ واسطے اب اس سے ہاتھ اٹھا کے میرے جِگر میں نم نہیں اے چشم اشکبار رہا ہوا تُو غیر سے جب ہمکنار میرے ساتھ کہاں وُہ وعدہ رہا اُور کہاں قرار رہا کروں جُو چاک گریباں کو اپنے ہوں مجبور کے میرے ہاتھ میں مرا نہ اختیار رہا نہ سیر لالہ و گّل ہم کو کچھ نظر آئی کے نوک ہر مژہ پر یاں دّل فگار رہا گلی میں اس کی گئے اُور وہاں سے پھر آئے تمام عُمر یہی اپنا کاروبار رہا غزل اِک اُور بھی اے مصحفیؔ سُنا دے تُو .کوئی کہے نہ کے بندہ امیدوار رہا
مصحفی غلام ہمدانی