پریشاں کِیوں نہ ہو جاوے نظارا اس آرائش نے دِل پر نقش مارا یہ مشاطہ بلائے تازہ لائی مجعّد کر دیا سر اس کا سارا ہزاروں چوٹیاں ننھی تھیں اُور بال نہ کِیوں تخت اپنا لٹوا دے ہزارا گداز آہن دلوں کو حُسن جب دے نہ ہووے آب کیوں کر سنگ خارا کہیں دیکھا ہے اس ہیئت کا معشوق نظر کیجو مسلماناں خدا را بلے اے مصحفیؔ دیگر چہ گویم .ادائے موئے مانی کشت مارا
مصحفی غلام ہمدانی