تُم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا قبضے پہ ہاتھ رکھ کہ ڈراتے ہو ہم کو کیا آنکھیں تمہاری جھپکیں ہیں ایدھر کو بیشتر تم ان اشارتوں سے بلاتے ہو ہم کو کیا آویں ہماری گور میں گر منکر و نکیر اتنا کہیں ابھی سے اٹھاتے ہو ہم کو کیا لا کر کِبھی دیا ہے کوئی پھول پھل ہمیں تم سیر گلستاں کو جُو جاتے ہو ہم کو کیا کہتے ہو ایک آدھ کی ہے مرے ہاتھوں مُوت ہم بھی سمجھتے ہیں یہ سناتے ہو ہم کو کیا ہم سے تُو اب تلک وہی شرم و حجاب ہے گر ہر کسی کہ سامنے آتے ہو ہم کو کیا کہتے ہو روز ہم سے یہی کل کو آئیو کیا خو نکالی ہے یہ ستاتے ہو ہم کو کیا دینا ہے کوئی بُوسہ تُو دے ڈالیے میاں کیوں پانو توڑتے ہو پھراتے ہو ہم کو کیا لے لے کہ نام اس کی جفاؤں کا مصحفیؔ .ہم آپ جل رہے ہیں جلاتے ہو ہم کو کیا
مصحفی غلام ہمدانی