خواریاں ، بدنامیاں ، رسوائیاں عِشق نے شکلیں یہ سب دکھلائیاں وُہ ہی کیں باتیں جُو تُجھ کو بھائیاں بل بے اے ظالم تیری خودرائیاں مر گئے لاکھوں ہی اُور پروانہ کی کیا کہوں میں اس کی بے پروائیاں ایک صورت کہ لیے اس عشق میں سیکڑوں صورت کی ہیں رسوائیاں شوق میں آغوش تیغ ناز کہ زخم دِل لیتے ہیں سب انگڑائیاں ہم سے پُوچھے کوئی عزلت کا مزہ گوشۂ صحرا ہے اُور تنہائیاں دِل مشبک صورت بادام ہے برچھیاں پلکوں کی کس کی کھائیاں خانۂ دِل پر ہمارے یا نصیب بادلوں نے بجلیاں برسائیاں مصحفیؔ بھی ہے پھنکیتوں میں میاں یاد ہیں اس کو بھی کتنی گھائیاں
غلام ہمدانی مصحفی