گر ہو طمنچہ بند وہ رشک فرنگیاں بانکے مغل بچے نہ کریں خانہ جنگیاں شوخی مزاج اس کہ سے اب تک گئی نہیں ویسے ہی بانکپن ہیں وہی غولہ دنگیاں بُلبُل کہ اشک سرخ نے یہ کیا غضب کیا جُو تیلیاں قفس کی سبھی خوں میں رنگیاں گردوں اگرچہ دِن کو غزال سیاہ ہے پر شب کو مرے ساتھ کرے ہے پلنگیاں دیکھا نہ ہوگا وہ کبھی بیژنؔ نے چاہ میں جُو دِن مُجھے دکھاتی ہیں قسمت کی تنگیاں عارض پہ ترے جوشش خط سیاہ ہے یا روم پر چڑھ آئی ہے یہ فوج زنگیاں کیا جانے کس سے بگڑی ہے دریا میں مصحفیؔ لہروں کہ ہاتھوں میں ہیں جُو تلواریں ننگیاں
غلام ہمدانی مصحفی