Iztirab

Iztirab

غیر کہ گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں

غیر کہ گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں 
تا نا اس بات کا چرچا ہو میری جان کہیں 
اب تلک غنچے کی گردن ہے جھکی خجلت سے 
اس نے دیکھی تھی تیری گوئے گریبان کہیں 
راز دِل اس سے کہا میں تُو ولے یہ ڈر ہے 
کے میرے راز کو کہہ دے نہ وُہ نادان کہیں 
اے پریشانئ زلف صنم کافر کیش 
کیجیو تُو نہ میرے دِل کو پریشان کہیں 
دِل کی بے چینی سے میں سخت بتنگ آیا ہوں 
چین پڑتا ہی نہیں ہے اسے اِک آن کہیں 
دھانی جوڑے نے تیرے کھیت رکھا ہے مُجھ کو 
سبز رنگ اتنے تُو دیکھے نہیں ہیں دھان کہیں 
منع کس واسطے کرتا ہے میں ترے صدقے 
عید کہ دِن تُو مُجھے ہونے دے قربان کہیں 
درد دِل جا کہ میں کہہ لوں ابھی در کہ نزدیک 
ایک ساعت کو ہی اُٹھ جاوے جُو دربان کہیں 
مصحفیؔ ایک غزل اُور بھی میں لکھتا ہوں 
یہ تُو بیتیں کئی میں نے بہت آسان کہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *