سخن میں کامرانی کر رہا ہوں ضعیفی میں جوانی کر رہا ہوں غرور نقش اَول پیش کیا جائے میں کار نقش ثانی کر رہا ہوں نہ سمجھے گا کوئی مُجھ کو پیمبر عبث دعوائے ثانی کر رہا ہوں اَجل تُو ہی سبک کر مُجھ کو آ کر دلوں پر میں گرانی کر رہا ہوں دِل معشوق پتھر ہے تُو ہووے میں اس کو پانی پانی کر رہا ہوں تصور ہے کہاں مُجھ پاس ترا میں خود باتیں زبانی کر رہا ہوں نہیں پاس اس کہ بیٹھا بے سبب میں گلوں کی پاسبانی کر رہا ہوں کبھی تُو بھی تُو میرے خواب میں آ میں تری یاد جانی کر رہا ہوں فرشتے کا گزر اس تک نہیں ہے میں آپھی بد گمانی کر رہا ہوں نہیں اے مصحفیؔ فہمیدہ کوئی عبث جادو بیانی کر رہا ہوں
غلام ہمدانی مصحفی