Iztirab

Iztirab

ہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل

فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل 
اور دید کا جو شوق ہے تو دید سے نکل 
زنداں ہجر میں ہمیں سونپا تھا عشق نے 
آئے ہیں ہم نصیبوں کی تائید سے نکل 
قالب میں میرے یارو بھلا کیا سماوی دم 
جب جان کو کہے کوئی تاکید سے نکل 
تشبیب میں بھی لطف ہے اک اے قصیدہ گو 
اتنا شتاب بھی تو نہ تمہید سے نکل 
مصرع کو پہنچے مصرعۂ ثانی برا ہے کیا 
کر لے نکاح عالم تجرید سے نکل 
کر تو عیوب نظم سے پرہیز اے فلاں 
شاعر ہے تو تنافر و تعقید سے نکل 
ہیں یاد کب اے مری وحشت کے رنگ ڈھنگ 
مجنوں گیا ہے دشت کو تقلید سے نکل 
وہ مست میں نہیں ہوں کہ مستوں کی کھا کے دھول 
جاؤں شراب خانۂ توحید سے نکل 
ہو مصحفیؔ تو علم الٰہی کا آشنا 
قید عناصر اور موالید سے نکل 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *