Iztirab

Iztirab

یادگار گزشتگاں ہیں ہم

یادگار گزشتگاں ہیں ہم 
خوب دیکھا تو پھر کہاں ہیں ہم 
شمع کی طرح بزم گیتی میں 
داغ بیٹھے ہیں اور رواں ہیں ہم 
رہے جاتے ہیں پیچھے یاروں سے 
گرد دنبال کارواں ہیں ہم 
رکھ نہ خنجر کو ہاتھ سے قاتل 
تیرے کشتوں میں نیم جاں ہیں ہم 
آبیار سخن ہے اپنی زباں 
لفظ و معنی کے باغباں ہیں ہم 
تو ہی تو ہے جو خوب غور کریں 
ایک دھوکا سا درمیاں ہیں ہم 
دعوت تیغ کے تو قابل ہیں 
گو کہ یک مشت استخواں ہیں ہم 
رنگ رخ پر ہمارے، زردی سی 
نظر آتی ہے، کیا خزاں ہیں ہم 
گو کیا ہم کو سرد پیری نے 
پر ابھی طبع میں جواں ہیں ہم 
اور بھی ہم کو رہنے دے چندے 
گو تری طبع پر گراں ہیں ہم 
باغباں اب چمن سے جاویں کہاں 
بلبل کہنہ آشیاں ہیں ہم 
مصحفیؔ شاعری رہی ہے کہاں 
اب تو مجلس کے روضہ خواں ہیں ہم 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *