Iztirab

Iztirab

ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں

ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں 
کہ غزل سرا ترے باغ میں کوئی مرغ تازہ نوا نہیں 
جو گلی میں یار کی جاؤں ہوں تو اجل کہے ہے یہ رحم کھا 
تو ستم رسیدہ نہ جا ادھر کوئی زندہ واں سے پھرا نہیں 
وہ غریب و بے کس و زار تھا تجھے اس کا دیتا ہوں میں پتہ 
ترے کشتہ کا وہ مزار تھا کہ چراغ جس میں جلا نہیں 
جو حکیم پاس میں جاؤں ہوں تو وہ دوستی سے سنائے ہے 
تو معاش کی بھی تلاش کر یہ مقام فقر و فنا نہیں 
مجھے عشق رکھتا ہے سرنگوں مرا جال پوچھو نہ کیا کہوں 
میں حباب بحر کا شیشہ ہوں مرے ٹوٹنے کی صدا نہیں 
ترے خاکساروں نے اپنا سر نہیں پیٹا دشت میں اس قدر 
کہ بگولہ واں سے غبار کا طرف آسماں کے گیا نہیں 
نہ نسیم باغ و بہار ہوں نہ فدائے روئے نگار ہوں 
میں غریب شہر و دیار ہوں مری دیر و کعبہ میں جا نہیں 
ترے نخل حسن کی کونپلیں ابھی ناشگفتہ ہیں اے پری 
جو نسیم آئی ہے اس نے بھی انہیں کچھ سمجھ کے چھوا نہیں 
ترے گیسوؤں میں جو جاتی ہے تو مرا ہی حال کہہ آتی ہے 
مری خصم جاں بھی تو اس قدر یہ نسیم نافہ کشا نہیں 
نہ میں رہنے والا ہوں باغ کا نہ صفیر سنج ہوں راگ کا 
مجھے ڈھونڈے ہے سو وہ کس جگہ کہیں آشیان ہما نہیں 
کوئی زخم خوردہ ہے خار کا کوئی خوں طپیدہ بہار کا 
ہے مرا ہی حوصلہ مصحفیؔ کہ کسی سے مجھ کو گلا نہیں

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *