Iztirab

Iztirab

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں 
اپنی قبر آپ ہی تعمیر کیے جاتا ہوں 
چین مطلق نہیں پڑتا شب ہجراں میں مجھے 
صبح تک نالۂ شب گیر کیے جاتا ہوں 
عفو پر عفو کی ریزش ہے ادھر سے ہر دم 
اور میں تقصیر پہ تقصیر کیے جاتا ہوں 
اس کے کوچے میں جو دیکھے گا کرے گا مجھے یاد 
اپنی صورت کی میں تصویر کیے جاتا ہوں 
اٹھ کے تا کوچۂ لیلیٰ سے نہ جاوے یہ کہیں 
پانو میں قیس کے زنجیر کیے جاتا ہوں 
کوئی لے جائے اسے یا کہ نہ لے جائے پہ میں 
نامۂ شوق کی تحریر کیے جاتا ہوں 
اس کا کیا جرم مرے ہوش گئے ہیں کیسے 
جو علم غیر پہ شمشیر کیے جاتا ہوں 
پیش جاتی نہیں یوں بھی مری اس سے ہر چند 
شر و مکر و فن و تزویر کیے جاتا ہوں 
نقش حب چال سے نکل ہے مری اس خاطر 
میں پری زادوں کی تسخیر کیے جاتا ہوں 
مصحفیؔ یار تو سنتا نہیں اور وحشی سا 
حال کی اپنے میں تقریر کیے جاتا ہوں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *