Iztirab

Iztirab

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں 
ساتھ فقیر کی ڈھولک کے پر ڈھم ڈھمیاں رنگین بجیں 
نالہ کشی سے رات جو گلشن رشک بزم عشرت تھا 
منقاریں مرغان چمن کی صبح تلک جوں بین بجیں 
تجھ سے نہ کہتا تھا میں زاہد مے خانے کی راہ نہ چل 
آخر تجھ پر رستے ہی میں تالیاں او بے دین بجیں 
میں جو نشے میں رات ہوا غٹپٹ اس معشوق کی چھاتی ساتھ 
پازیبیں پاؤں کی اس کے کیا ہی بصد تمکین بجیں 
شمع رہی شب جب تک جلتی مجھ کو نہ آئی نیند ذرا 
جھانجھیں پروانے کے پروں کی بس کہ سر بالین بجیں 
بل بے مزاج نازک تیرا نیند اچٹ گئی اس گل کی 
بالیاں پتوں سے جو الجھ کر رات سر بالین بجیں 
وعدہ کر کے جب وہ نہ آیا سیر چمن کو دل نے کہا 
رات گئی چل باغ سے اب گھڑیاں تو کئی غمگین بجیں 
جی کا کڑھانا میرے تھا منظور مگر گھڑیالوں کی 
وصل کی شب جو تا بہ سحر گھڑیالیں بے آئین بجیں 
ڈیڑھ پہر ٹھہروں گا یہ کہہ کہ یار مرے گھر آیا تھا 
پر گھبرا کے جانے کو اٹھا جوں ہی پہر پر تین بجیں 
بانگ حمیر سے کم وہ نہ سمجھا بس کہ نفیس مزاج تھا یار 
ناقوسیں بت خانوں میں ہر چند بصد تزئین بجیں 
آئے بحتری ہو کے ملائک مر جو گیا عاشق تیرا 
نوبتیں کیا کیا شادی کی مرقد میں دم تلقین بجیں 
وصل کی شب آخر ہونے کا مصحفیؔ دھڑکا کیا میں کہوں 
جی ہی گیا بس تن سے نکل جب تین پہر پر تین بجیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *