Iztirab

Iztirab

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں 
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں 
اس بات پر بھلا ہم کیوں کر نہ زہر کھاویں 
ہم سے وہی رکاوٹ غیروں سے یاریاں ہیں 
ٹک صفحۂ زمیں کے خاکے پہ غور کر تو 
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں 
دل کی تپش کا اپنی عالم ہی کچھ جدا ہے 
سیماب و برق میں کب یہ بے قراریاں ہیں 
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت 
جن محملوں کے اندر دو دو سواریاں ہیں 
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیری 
پلکیں ندیدیاں ہیں آنکھیں خماریاں ہیں 
نومید ہیں بظاہر گو وصل سے ہم اس کے 
دل میں تو سو طرح کی امیدواریاں ہیں 
کیا پوچھتا ہے ہم دم احوال مصحفیؔ کا 
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *