یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں بھرا ہے موئے بہ مو سحر سامری جس میں یہ لعل لخت جگر ہے وہ لعل بیش بہا کہ کام کرتی نہیں چشم جوہری جس میں دیا ہے میں نے دل ایسے کو اور پریشاں ہوں نہ مہر ہے نہ محبت نہ دلبری جس میں خدا دو چار نہ ہم سے کرے کبھی اس کو نکلتی ہو تری آنکھوں سے کافری جس میں ہٹے ہے مانیؔ سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا لکھی ہے صورت مجنوں کی لاغری جس میں غضب ہے تو نے نہ دیکھا وہی مرا دل تھا بندھی ہوئی تھی ترے تیر کی سری جس میں کسی سے کام میاں مصحفیؔ نہ کچھ رکھیے وہ کام کیجئے ہو اپنی بہتری جس میں
غلام ہمدانی مصحفی