Iztirab

Iztirab

ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں

ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں 
دو قدم جاتے ہیں پھر جا کے چلے آتے ہیں 
ہم کو اے شرم ٹک اب اس کی طرف جانے دے 
حال اپنا اسے دکھلا کے چلے آتے ہیں 
دن کو زنہار ٹھہرتے نہیں ہم اس کو میں 
رات کو ملنے کی ٹھہرا کے چلے آتے ہیں 
وہ ادا کشتہ ٹھہرتا نہیں پھر مقتل میں 
لاش کو جس کی وہ ٹھکرا کے چلے آتے ہیں 
میں بھروسے ہی میں رہتا ہوں تری زلفوں میں 
یار میرے مجھے پھنسوا کے چلے آتے ہیں 
وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو 
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں 
جاتے ہیں کوچے میں ہم اس کے تو واں غیر کو دیکھ 
پھر نہ آنے کی قسم کھا کے چلے آتے ہیں 
قیدی مر جاتے ہیں جب آپ کبھی زنداں کے 
قفل دروازے کو لگوا کے چلے آتے ہیں 
چھٹتے ہیں جو اسیران قفس گلشن میں 
کیا ہی پر شوق سے پھیلا کے چلے آتے ہیں 
غیر جب وصل کا کرتا ہے سوال ان سے تو وے 
کیسے محجوب ہو دم کھا کے چلے آتے ہیں 
رہ روان سفر بادیۂ عشق اے وائے 
قافلے راہ میں لٹوا کے چلے آتے ہیں 
میں تو سمجھا تھا بجھاویں گے کچھ آنسو تف دل 
یہ تو اور آگ کو بھڑکا کے چلے آتے ہیں 
ساتھ میت کے مری وہ نہیں چلتے دو قدم 
بس وہیں نعش کو اٹھوا کے چلے آتے ہیں 
دل کی بیتابی سے جاتے تو ہیں ہم اس کو میں 
لیک اس جانے سے پچھتا کے چلے آتے ہیں 
بدرقہ گر نہیں احباب تو پھر کیوں پس مرگ 
تا بہ منزل مجھے پہنچا کے چلے آتے ہیں 
مصحفیؔ کے تئیں دیکھیں ہیں جو وہ کشتہ پڑا 
پاس جاتے نہیں شرما کے چلے آتے ہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *