Iztirab

Iztirab

وہی راتیں آئیں وہی زاریاں

وہی راتیں آئیں وہی زاریاں 
وہی پھر سحر تک کی  بیداریاں 
پری حور انساں کسی میں نہیں 
جو دیکھی ہیں تجھ میں ادا داریاں 
میں کافر ہوں پر دیکھ سکتا نہیں 
کمر سے تری ربط زناریاں 
نہ تھے داغ سینے کے اتنے گھنے 
یہ ہیں دست قدرت کی گل کاریاں 
ہم اک روز جی سے گزر جائیں گے 
رہیں یوں ہی گر نت کی بے زاریاں 
بہاریں کہاں ابر گلنار کی 
کہاں میری مژگاں کی خوں باریاں 
نہ سجدوں سے حاصل ہوا وصل یار 
میں کعبے میں بھی ٹکریں ماریاں 
مواقیس جس دم تو ثابت ہوئیں 
سوا عشق کے کتنی بیماریاں 
تو کیسی بلا میں پھنسا مصحفیؔ 
ہوئیں کیا دوانے وہ ہشیاریاں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *