Iztirab

Iztirab

جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی

جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی 
کیا جانے کوئی کسی کی جی کی 
شاہد رہیو تو اے شب ہجر 
جھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی 
رونے پہ مرے جو تم ہنسو ہو 
یہ کون سی بات ہے ہنسی کی 
جوں جوں کہ بناؤ پر وہ آیا 
دونی ہوئی چاہ آرسی کی 
گو اب وہ جواں نہیں پہ ہم سے 
لت جائے ہے کوئی عاشقی کی 
چاہے تو شفق کو پھونک دیوے 
سرخی ترے رنگ آتشی کی 
میں وادیٔ عشق میں جو آیا 
مجنوں نے مری نہ ہم سری کی 
کھاتے نہیں اب ترے نصیری 
سوگند بھی مرتضیٰ علی کی 
کیا ریختہ کم ہے مصحفیؔ کا 
بو آتی ہے اس میں فارسی کی 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *