Iztirab

Iztirab

چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری

چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری 
سفر میں یہ ہے رو سیاہوں کی گٹھری 
پڑی روز محشر وہیں برق آ کر 
جہاں تھی ترے دادخواہوں کی گٹھری 
مسافر میں اس دشت کا ہوں کہ جس میں 
لٹی کتنے گم کردہ راہوں کی گٹھری 
جہاں سوس نے بحر سے سر نکالا 
میں سمجھا ہے کشتی تباہوں کی گٹھری 
کلاہ زری ماہ نو نے اڑا لی 
کھلی تھی کہیں کج کلاہوں کی گٹھری 
ہم ان سرقہ والوں میں اے مصحفیؔ ہیں 
چراتے ہیں جو بادشاہوں کی گٹھری 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *