Iztirab

Iztirab

میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی

میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی 
میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی 
گو صبح دور ہے شب ہجراں کی لیک تو 
اپنی طرف سے تو نہ کر اے نالہ گو تہی 
ظالم پھرا مزاج نہ تیرا غرور سے 
انصاف کر تو میں تری کیا کیا جفا سہی 
لطموں سے بحر حسن کے ہے زلف کا یہ رنگ 
لہروں میں جیسے پھرتی ہو ناگن بہی بہی 
اللہ رے رعب حسن کہ اس بت کے سامنے 
آئی جو بات دل سے زباں پر وہیں رہی 
ہم اس فریق میں نہیں وہ اور لوگ ہیں 
دنیا کے نیک و بد سے جو رکھتے ہیں آگہی 
صد آفریں کہ بحر میں سوداؔ کی مصحفیؔ 
اک تو نے آب دار غزل اور بھی کہی 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *