Iztirab

Iztirab

اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے

اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے 
تس پہ ترے پازیب کی جھنکار غضب ہے 
کیوں کر نہ تجھے دوڑ کے چھاتی سے لگا لوں 
پھولوں کا گلے میں ترے یہ ہار غضب ہے 
جب دیکھوں ہوں کرتی ہے مرے دل کو پریشاں 
آشفتگیٔ طرۂ طرار غضب ہے 
اے کاش یہ آنکھیں مجھے یہ دن نہ دکھاتیں 
اس شوق پہ محرومیٔ دیدار غضب ہے 
خورشید کا منہ ہے کہ طرف ہو سکے اس سے 
یعنی وہ بر افروختہ رخسار غضب ہے 
میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے 
یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے 
اب تک حرم وصل سے محرم نہ ہوئے ہم 
کعبے میں حجاب در و دیوار غضب ہے 
گر ایک غضب ہو تو کوئی اس کو اٹھاوے 
رفتار غضب ہے تری گفتار غضب ہے 
فرہاد بچا عشق سے نے قیس نہ وامق 
جی لے ہی کے جاتا ہے یہ آزار غضب ہے 
اے مصحفیؔ اس شوق سے ٹک بچ کے تو چلنا 
سنتا ہے میاں وہ بت خوں خار غضب ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *