Iztirab

Iztirab

بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے

بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے 
یہ اور طرح کا چاہنا ہے 
ہے وعدۂ وصل آج مجھ کو 
اسباب طرب بساہنا ہے 
ہیں ناوک غمزہ گرچہ کاری 
میرا ہی جگر سراہنا ہے 
دنیا ہے سرائے فانی اس میں 
جو آیا ہے یاں سو پاہنا ہے 
چتون میں کہے ہے یوں وہ مغرور 
تجھ سے مجھے کیا نباہنا ہے 
اے مصحفیؔ دل رہا ہے پیچھے 
اس کو بھی ذرا نباہنا ہے

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *