Iztirab

Iztirab

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے

تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے 
کبھو پاس آئے ہے میرے کبھو پھر بھاگ جاتا ہے 
خدا جانے تجھے اس کی خبر ہے یا نہیں ظالم 
کہ وہ اک آن میں کیا کیا سمیں مجھ کو دکھاتا ہے 
بلائیں اس کی میں لیتا ہوں چٹ چٹ اٹھ کے جس ساعت 
مری چالاکیوں کو دیکھے ہے اور مسکراتا ہے 
جو اٹھتا ہوں تو کہتا ہے کدھر جاتا ہے ایدھر آ 
جو بیٹھوں ہوں تو کہتا ہے کہ میں جاتا ہوں آتا ہے
جو روتا ہوں تو کہتا ہے تو کیوں روتا ہے دیوانے 
جو سر زانو پہ رکھتا ہوں تو ہاتھوں سے اٹھاتا ہے 
جو جاگوں ہوں تو کہتا ہے کہیں اب سو بھی رہ ناداں
جو سوتا ہوں تو چٹکی لے کے اک دل میں جگاتا ہے 
کبھی ہو جائے ہے غائب نظر سے بات کے کہتے 
کبھی پھر سامنے ہو کر کھڑا باتیں بناتا ہے 
کبھی دکھلائے ہے پنڈے کا لطف اور گات کا عالم 
کبھی نزدیک آ بالوں کی اپنے بو سنگھاتا ہے 
غرض اے مصحفیؔ میں کیا کہوں شب تا سحر یو ہیں 
نہ اس کو چین آتا ہے نہ مجھ کو چین آتا ہے

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *