Iztirab

Iztirab

ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے

ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے 
پھر اس دل کو آزار پیدا ہوا ہے 
سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر 
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے 
یہ مدفن ہے کس کا جو ہر لالہ یاں سے 
جگر خوں دل افگار پیدا ہوا ہے 
اڑائے ہیں لخت جگر آہ نے جب 
ہوا میں بھی گل زار پیدا ہوا ہے 
میں کیوں کر نہ رکھوں عزیز اپنے دل کو 
کہیں دل سا بھی یار پیدا ہوا ہے 
کہے تھی یہ طفلی میں دیکھ اس کو دایہ 
یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے 
میں آیا ہوں مدت میں کوئی اس سے کہہ دو 
تمہارا گنہ گار پیدا ہوا ہے 
یہ دل مجھ سے لڑتا ہے تیری طرف سے 
کہاں کا طرف دار  پیدا ہوا ہے 
میاں مصحفیؔ بیچتے ہو جو دل کو 
تو لاؤ خریدار  پیدا ہوا ہے

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *