پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے آتے ہیں کس ادا سے اس منہ پہ گھاٹ والے چسکا پڑا ہے جب سے شیریں لبوں کا اس کے کیسے لگے رہیں ہیں بوسے کی چاٹ والے دریا پہ تو نہانے جایا نہ کر کہ ناداں واں گھات میں ہیں تیری کئی دھوبی پاٹ والے کوچے میں تیرے ظالم از بہر داد خواہی یہ ظلم ہے تو لاکھوں آویں گے گھاٹ والے بازار مصر میں وہ جن جن کو چھل گیا ہے اک سوچ میں ہیں بیٹھے اب تک وہ ہاٹ والے دیکھے نہ کوئی ان کو با دیدۂ حقارت خزپوشوں پر گراں ہیں البتہ ٹاٹ والے میں نے رقیب کو کل باتوں میں خوب کاٹا چوکیں ہیں مصحفیؔ کب ہیں وہ جو کاٹ والے
غلام ہمدانی مصحفی