Iztirab

Iztirab

تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے

تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے 
الفت تری اس قدر بہت ہے 
اے دل تو نہ کر ہماری خصمی 
بس اک دل کینہ ور بہت ہے 
ٹک اور بھی صبر کر کہ مجھ کو 
لکھنا ابھی نامہ بر بہت ہے 
ہم آبلہ بن رہے ہیں ہم کو 
اک جنبش نیشتر بہت ہے 
شیشے میں ترے شراب ساقی 
ٹک ہم کو بھی دے اگر بہت ہے 
اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا
دامن ترا خوں میں تر بہت ہے 
افسانۂ عشق کس سے کہیے 
اس بات میں درد سر بہت ہے 
مجھ کو نہیں آہ کا بھروسہ 
یعنی کہ یہ بے اثر بہت ہے 
اس دل کی تو تو خبر رکھا کر 
یہ آپ سے بے خبر بہت ہے 
کیا بگڑی ہے آج مصحفیؔ سے 
اس کوچے میں شور و شر بہت ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *