Iztirab

Iztirab

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے 
نہ وہ دل فریبی کے ہیں چلن نہ وہ  پیاری  پیاری نگاہ ہے 
ترے ہجر میں مہ سیم بر کوئی غور سے جو کرے نظر 
مری صبح شام سے ہے بتر مرا روز شب سے سیاہ ہے 
ہے ہر ایک بات میں اب کجی کہ چلن نکالے ہیں اور ہی 
نہ وہ ربط ہے نہ وہ دوستی نہ وہ رسم ہے نہ وہ راہ ہے 
کوئی زہر غم پیے تا بہ کے ہوئی صرف ساغر غیر مے 
نہ وہ جوشش سر شام ہے نہ وہ وعدۂ شب ماہ ہے 
بنے کیونکے پھر مری اس کی اب کہ یہ تفرقہ ہے بڑا غضب 
مجھے اس سے اچھے کی ہے طلب اسے مجھ سے اچھے کی چاہ ہے 
کبھی سامنے سے جو وہ جائے ہے کبھی پھیر منہ کو دکھائے ہے 
مجھے درد رشک ستائے ہے کہ یہی وہ غیرت ماہ ہے 
تھی نگاہ پہلے تو اس کی ووں کہیں دوستی میں ہوا ہے یوں 
دیا اس نے دل کہیں اور کیوں یہی مصحفیؔ کا گناہ ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *