Iztirab

Iztirab

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ 
وحشت یہی کہتی ہے کہ زنجیر تڑا بھاگ 
گرتے تھے خریدار کب اس طرح سے اس پر 
پاؤں سے ترے لگتے ہی مہندی کو لگا بھاگ 
شوخی کہوں کیا تیرے تصور کی کہ ہے ہے 
شب سامنے آ کر مرے آگے سے گیا بھاگ 
جب کبک دری دیکھے ہے رفتار کو اس کی 
کہتا ہے یہی جی میں  یہ رفتار اڑا بھاگ
زاہد جو ہوا کر کے وضو حوض پہ قائم 
اک رند کو سوجھی کہ تو اب اس کو گرا بھاگ 
ٹھہرا جو ذرا بحر محبت پہ میں جا کر 
آئی لب ساحل سے یہی اس کے صدا بھاگ 
اے مصحفیؔ ہے مار فلک رہزن مردم 
تو بھاگ سکے اس سے تو از بہر خدا بھاگ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *