اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ وحشت یہی کہتی ہے کہ زنجیر تڑا بھاگ گرتے تھے خریدار کب اس طرح سے اس پر پاؤں سے ترے لگتے ہی مہندی کو لگا بھاگ شوخی کہوں کیا تیرے تصور کی کہ ہے ہے شب سامنے آ کر مرے آگے سے گیا بھاگ جب کبک دری دیکھے ہے رفتار کو اس کی کہتا ہے یہی جی میں یہ رفتار اڑا بھاگ زاہد جو ہوا کر کے وضو حوض پہ قائم اک رند کو سوجھی کہ تو اب اس کو گرا بھاگ ٹھہرا جو ذرا بحر محبت پہ میں جا کر آئی لب ساحل سے یہی اس کے صدا بھاگ اے مصحفیؔ ہے مار فلک رہزن مردم تو بھاگ سکے اس سے تو از بہر خدا بھاگ
غلام ہمدانی مصحفی