Iztirab

Iztirab

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے 
کب یہ ان تک خبر آمد گل لاتی ہے 
دختر رز کی ہوں صحبت کا مباشر کیوں کر 
ابھی کمسن ہے بہت مرد سے شرماتی ہے 
کیونکہ فربہ نہ نظر آوے تری زلف کی لٹ 
جونک سی یہ تو مرا خون ہی پی جاتی ہے 
جسم نے روح رواں سے یہ کہا تربت میں 
اب مجھے چھوڑ کے تنہا تو کہاں جاتی ہے 
کیا مگر اس نے سنا شہرۂ حسن اس گل کا 
آنکھیں کحال سے نرگس بھی جو بنواتی ہے 
لاکھ ہم شعر کہیں لاکھ عبارت لکھیں 
بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے 
ہووے کس طرح دلیرانہ وہ عاشق سے دو چار 
اپنے بھی عکس سے جو آنکھ کہ شرماتی ہے 
مصحفیؔ کو نہیں کچھ وصف اضافی سے تو کام 
شعر کہنا زبس اس کا صفت ذاتی ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *