Iztirab

Iztirab

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے 
وہ رتبہ عشق کا اب کب رہا ہے 
بشاشت برگ گل میں ہے جو اتنی 
کسی کے لب پر اس کا لب رہا ہے 
مشوش شکل سے اس گل کی ظاہر 
یہ ہوتا ہے کہیں وہ شب رہا ہے 
پرستش ہی میں شب آخر ہوئی ہے 
ہمارے پاس وہ بت جب رہا ہے 
تمہارے عہد میں اے کافرو ہائے 
کہاں وہ ملت و مذہب رہا ہے 
مرا زانو ترے زانو کے نیچے 
اٹھوں کیوں کر کہ کافر دب رہا ہے 
اسے کب ناز بستاں کی ہوس ہے 
یہ دل نت کشتۂ غبغب رہا ہے 
موئے جز میرؔ جو تھے فن کے استاد 
یہی اک ریختہ گو اب رہا ہے 
نت اس کی مصحفیؔ کھاتا ہوں دشنام 
یہی تو میرا اب منصب رہا ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *