Iztirab

Iztirab

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر 
پچھتائے ہم اس شام غریباں سے نکل کر 
یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں 
جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر 
استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید 
لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر 
معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو 
یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر 
گزرا رگ گردن سے کہ جوں شمع سر اپنا 
تلوار ہی کھاتا ہے گریباں سے نکل کر 
نا زوری میں آیا نہ کبھو تا سر مژگاں 
یک قطرۂ خوں بھی بن مژگاں سے نکل کر 
تیروں میں کماں دار مرا گھیر لے جس کو 
وہ جانے نہ پاوے کبھی میداں سے نکل کر 
ہم آپ فنا ہو گئے اے ہستئ موہوم 
جوں موج تبسم لب جاناں سے نکل کر 
صورت کے تری سامنے رہ جائے ہے کیسے 
ہر بت کی نگہ دیدۂ حیراں سے نکل کر 
اس دست حنائی میں رہا آئینہ اکثر 
دریا نہ گیا پنجۂ مرجاں سے نکل کر 
اب پڑھ وہ غزل مصحفیؔ تو شستہ و رفتہ 
سننے جسے خلق آئے صفاہاں سے نکل کر 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *