Iztirab

Iztirab

چھریاں چلیں شب دل و جگر پر

چھریاں چلیں شب دل و جگر پر 
لعنت ہے اس آہ بے اثر پر 
بالوں نے ترے بلا دکھا دی 
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر 
نامے کو مرے چھپا رکھے گا 
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر 
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ 
اس کو میں امید یک نظر پر 
کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب 
زردی سی ہے کیوں رخ قمر پر 
پھر غیرت عشق نے بٹھائے 
درباں شدید اس کے در پر 
رہتی ہیں بہ وقت گریہ اکثر 
دو انگلیاں اپنی چشم تر پر 
ہے عشق سخن کا مصحفیؔ کو 
مائل نہیں اتنا سیم و زر پر 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *