Iztirab

Iztirab

ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے

ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے 
ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے 
انگڑائیاں لیتی ہے تمنا تری دل میں 
شیشے میں پری ناز کے پر تول رہی ہے 
رہ رہ کے کھنک جاتی ہے ساقی یہ شب ماہ 
اک جام پلا خنکئ شب بول رہی ہے 
دل تنگ ہے شب کو کفن نور پنہا کے 
وہ صبح جو غنچوں کی گرہ کھول رہی ہے 
شبنم کی دمک ہے کہ شب ماہ کی دیوی 
موتی سر گلزار جہاں رول رہی ہے 
رکھتی ہے مشیت حد پرواز جہاں بھی 
انسان کی ہمت وہیں پر تول رہی ہے 
پہلو میں شب تار کے ہے کون سی دنیا 
جس کے لئے آغوش سحر کھول رہی ہے 
ہر آن وہ رگ رگ میں چٹکتی ہوئی کلیاں 
اس شوخ کی اک ایک ادا بول رہی ہے

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *