Iztirab

Iztirab

ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب

ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب 
اور باقی میرے تیرے درمیاں صدہا حساب 
دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل 
آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مست شباب 
گیسوئے خم دار میں اشعار تر کی ٹھنڈکیں 
آتش رخسار میں قلب تپاں کا التہاب 
ایک عالم پر نہیں رہتی ہیں کیفیات عشق 
گاہ ریگستاں بھی دریا گاہ دریا بھی سراب 
کون رکھ سکتا ہے اس کو ساکن و جامد کہ زیست 
انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب 
ڈھونڈئیے کیوں استعارہ اور تشبیہ و مثال 
حسن تو وہ ہے بتائیں جس کو حسن لاجواب 
اے فراقؔ اٹھتی ہیں حیرت کی نگاہیں با ادب 
اس کے دل کی خلوتوں میں ہو رہا ہوں باریاب

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *