Iztirab

Iztirab

پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر

پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر 
رہ جائے جیسے کوئی بسمل تڑپ تڑپ کر 
مجنون بے خرد نے دی جاں بہ ناامیدی 
لیلیٰ کا دیکھتے ہی محمل تڑپ تڑپ کر 
کہیو صبا جو جاوے مذبوح غم نے تیرے 
آسان کی شب اپنی مشکل تڑپ تڑپ کر 
اس پردگی نے اپنا آنچل نہیں دکھایا 
مر مر گئے ہیں اس کے مائل تڑپ تڑپ کر 
قاتل کا میرے کوچہ ہے خواب گاہ راحت 
کیا کیا نہ سو رہے یاں گھائل تڑپ تڑپ کر 
حال اس غریق کا ہے جائے ترحم اے دل 
رہ جائے ہے جو زیر ساحل تڑپ تڑپ کر 
قابو میں آئے پر میں چھوڑا نہ اس کو ہرگز 
بل کھا کے گرچہ نکلا قاتل تڑپ تڑپ کر 
تو نے تو آبرو ہی کھو دی ہماری اے دل 
مقتل میں عاشقوں کے شامل تڑپ تڑپ کر 
جھمکے دکھا کے اس کو تو نے جو منہ دکھایا 
مر ہی گیا نہ تیرا سائل تڑپ تڑپ کر 
گو مرغ نامہ بر کو بسمل کیا ہے اس نے 
طے کر رہے گا آخر منزل تڑپ تڑپ کر 
فرقت میں اس کی تو نے اے مصحفیؔ بتا تو 
جز اشک خوں کیا کیا حاصل تڑپ تڑپ کر 
مجھ کو یہ سوجھتا ہے ناحق تو جان دے گا 
اک دن اسی طرح سے جاہل تڑپ تڑپ کر 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *