Iztirab

Iztirab

کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ

کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ 
تو بحث نہ مے خواروں سے چل دور ہو اے شیخ 
مسجد میں ذرا وقت سحر دیکھ تو جا کر 
شاید کوئی اس چشم کا مخمور ہو اے شیخ 
صد دانۂ تسبیح رکھے ہاتھ میں اپنے 
چونکے تو جو یک دانۂ انگور ہو اے شیخ 
تو مجھ کو کہے ایک میں سو تجھ کو سناؤں 
اے کاش کہ اتنا مجھے مقدور ہو اے شیخ 
آیا ہے وہ بدمست لیے ہاتھ میں شمشیر 
مجلس سے شتابی کہیں کافور ہو اے شیخ 
کرتا ہے ہمیں منع تو پیمانہ کشی سے 
پیمانہ تری عمر کا معمور ہو اے شیخ 
البتہ کرے منع ہمیں عشق بتاں سے 
تجھ سا جو کوئی عقل سے معذور ہو اے شیخ 
پھر دم ہے وہ شملہ جو ہوا حد سے زیادہ 
رکھ شملہ تو شملے کا جو دستور ہو اے شیخ 
ہر حرف میں سختی ہے ترے سنگ جفا سے 
ڈرتا ہوں نہ پھر شیشۂ دل چور ہو اے شیخ 
کیا حور کی باتوں سے لبھاوے ہے تو مجھ کو 
حاشا کہ مجھے آرزوئے حور ہو اے شیخ 
شیخی میں تو سنتا ہی نہیں بات کسی کی 
اس داڑھی پر اتنا بھی نہ مغرور ہو اے شیخ 
کیوں مصحفیؔ کو اتنی تو کرتا ہے نصیحت 
سر چڑھ نہ بہت اس کے جو مجبور ہو اے شیخ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *