Iztirab

Iztirab

چشم نے کی گوہر افشانی صریح

چشم نے کی گوہر افشانی صریح 
ہو گئی یہ ہم سے نادانی صریح 
منہ چھپا قاتل کہ تیری ہی طرف 
تک رہی ہے چشم قربانی صریح 
کربلائے عشق میں عشاق کی 
تیغ و خنجر پر ہے مہمانی صریح 
آئینے میں بھی نہیں پڑتا ہے عکس 
ہے تری تصویر لا ثانی صریح 
ژالہ ساں کیوں کر گھلے جاویں نہ ہم 
ہے جو آنسو میں پریشانی صریح 
کیونکہ استقلال کا دم ماریں ہم 
استخواں اپنے تو ہیں پانی صریح 
مزرع دل کس طرح سرسبز ہو 
برق یاں کرتی ہے جولانی صریح 
ماہ نو ہے کس کے در کا سجدہ پاش 
رک گئی ہے اس کی پیشانی صریح 
مصحفیؔ دم توڑے ہے مرتا نہیں 
کر رہا ہے یہ گراں جانی صریح 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *