دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب دن عید کے تو خوب گھڑا جائے محتسب اے چرخ فتنہ گر یہ روا ہے کہ ہر برس صہبا کشوں پہ باج کی ٹھہرائے محتسب مستوں نے سنگسار کیا اس کو بارہا لیکن گیا نہ اس پہ بھی سودائے محتسب ہاتھوں سے اس کے شیشۂ دل چور ہے مرا یارب کیے کی اپنے سزا پائے محتسب یہ کوئے مے فروش میں رولا ہوا کہ رات دہشت سے واں ٹھہر نہ سکا پائے محتسب مست شراب عشق کو بازار دہر میں زنہار بیم شحنہ نہ پروائے محتسب کچھ دے کے رشوت اس کو تو پی مصحفیؔ شراب سب زر کے واسطے ہے یہ غوغائے محتسب
غلام ہمدانی مصحفی