Iztirab

Iztirab

رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث

رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث 
میں بھی تا صبح رکھی بلبل گل زار سے بحث 
نو بہاراں میں وہ ہو جاوے ہے کیوں سرخ مگر 
داغ دل کو ہے مرے لالۂ کہسار سے بحث 
طالب علم محبت جو میں تھا طفلی میں 
تھی نت آنکھوں کی مرے حسن رخ یار سے بحث 
صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ 
نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث 
سو زباں گو ہوئیں منہ میں ترے اے غنچۂ گل 
تجھ کو لازم نہیں کرنا مری منقار سے بحث 
شیوہ ہر چند کہ اپنا نہیں طالب علمی 
تو بھی موجود ہیں ہم کرنے کو دو چار سے بحث 
یوں ہوئی ہار گلے کا مرے وہ نرگس مست 
جوں کرے راہ میں کوئی کسی ہشیار سے بحث 
ہوں وہ دیوانہ کہ اک شب بھی جو میں گھر میں رہوں 
رات کو صبح کروں کر در و دیوار سے بحث 
عقل کل نے نہیں الزام دیا اس کو حسود 
دور ہو، کر نہ عبث مصحفیؔ زار سے بحث 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *