رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث میں بھی تا صبح رکھی بلبل گل زار سے بحث نو بہاراں میں وہ ہو جاوے ہے کیوں سرخ مگر داغ دل کو ہے مرے لالۂ کہسار سے بحث طالب علم محبت جو میں تھا طفلی میں تھی نت آنکھوں کی مرے حسن رخ یار سے بحث صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث سو زباں گو ہوئیں منہ میں ترے اے غنچۂ گل تجھ کو لازم نہیں کرنا مری منقار سے بحث شیوہ ہر چند کہ اپنا نہیں طالب علمی تو بھی موجود ہیں ہم کرنے کو دو چار سے بحث یوں ہوئی ہار گلے کا مرے وہ نرگس مست جوں کرے راہ میں کوئی کسی ہشیار سے بحث ہوں وہ دیوانہ کہ اک شب بھی جو میں گھر میں رہوں رات کو صبح کروں کر در و دیوار سے بحث عقل کل نے نہیں الزام دیا اس کو حسود دور ہو، کر نہ عبث مصحفیؔ زار سے بحث
غلام ہمدانی مصحفی