Iztirab

Iztirab

عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے

عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے 
زندگانی بھی اب قلیل سی ہے 
گریہ کرتا ہوں کیا میں نذر حسین 
آنسوؤں کی جو اک سبیل سی ہے 
چل دلا وہ پتنگ اڑاتا ہے
ابھی آنے میں اس کے ڈھیل سی ہے 
لوگ کرتے ہیں وصف نور جہاں 
میں نے دیکھا وہ زن تو فیل سی ہے 
کس کے مژگاں نے یہ کیا جادو 
میرے دل میں گڑی جو کیل سی ہے 
تو گر آوے شکار ماہی کو 
چشم تر آنسوؤں سے جھیل سی ہے 
اس کو صحبت کا گر دماغ نہیں 
طبع اپنی بھی کچھ علیل سی ہے 
دل مرا مصر حسن ہے تب تو 
ندی آنکھوں کی رود نیل سی ہے 
ہے جو یہ مصحفیؔ کی ہم خوابہ 
ہے تو اچھی پہ کچھ اصیل سی ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *