یا تھی ہوس وصال دن رات یا رہنے لگا ملال دن رات بے چین رکھے ہے میرے دل کو کافر یہ ترا خیال دن رات رہتا ہے مری زباں پہ تجھ بن افسانۂ زلف و خال دن رات دیکھوں ہوں بہ نقطۂ تصور ملنے کی ترے ہی فال دن رات آنکھوں میں پھرے ہے جوں مہ عید ابرو کا ترے ہلال دن رات وہ صید ہوں میں رہے ہے جس کے اندیشے کا سر پہ جال دن رات آنکھوں کے تلے مری پھرے ہے اب تک وہی بول چال دن رات جس سبزۂ مرغزار میں تھا رقصندہ مرا غزال دن رات جولانیٔ درد و غم سے اب یاں وہ سبزہ ہے پائمال دن رات گر تو ہی نہیں تو کیوں جیوں میں ہے زیست مجھے وبال دن رات فرقت میں تری ہے مصحفیؔ کو لکھنا یہی حسب حال دن رات
غلام ہمدانی مصحفی