Iztirab

Iztirab

کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا

کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا 
ہم لوگ ہیں سودائی اوقات ہماری کیا 
بجلی سے لپٹ کر ہم بھسمنت ہوئے آخر 
اس کو ترے دامن کی سمجھے تھے کناری کیا 
جوں شمع سر شب سے میں رونے کو بیٹھا ہوں 
تا آخر شب دیکھوں دکھلائے یہ زاری کیا 
گھبرائی جو پھرتی ہے اس طور صبا ہر سو 
آتی ہے گلستاں کو اس گل کی سواری کیا 
رونا مری آنکھوں سے جب تک کہ نہ سیکھے گا 
جا بیٹھ تو رووے گا اے ابر بہاری کیا 
سوتے سے تو اٹھنے دو ٹک اس کو سحر ہوتے 
دیکھو گے کہ مچلے گی وہ چشم خماری کیا 
نرگس کی خجل آنکھیں اتنی تو نہ تھیں گاہے 
اس چشم مفتن سے بازی کوئی ہاری کیا 
اوقات مجرد کی کس طرح بسر ہووے 
جنگل ہے یہ بکتی ہے یاں نان نہاری کیا 
اے مصحفیؔ میں اس کو جی جان سے گو چاہا 
آخر کو ہوا حاصل جز ذلت و خواری کیا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *