Iztirab

Iztirab

دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ

دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ 
لے گئے سپیرے واں سے بہت بھر کے باٹ سانپ 
ازبسکہ اس کے زہر پہ غالب ہے زہر عشق 
مر جاوے ہے وہیں ترے عاشق کو کاٹ سانپ 
دریا میں سر کے بال کوئی دھو گیا مگر 
لہروں کے ہو رہے ہیں جو یوں بارہ باٹ سانپ 
نامرد سے بھلا جٹئی خاک پھر ہوئی 
سمجھا جب اپنی بھینس کی رسی کو جاٹ سانپ 
تحریک زلف سے تری باد سموم نے 
کہتے ہیں دشت و در میں دیے باٹ باٹ سانپ 
تھے جس زمیں پہ صندل پا کے ترے نشاں 
جیتے ہیں اب وہیں کی ذرا خاک چاٹ سانپ 
ساحل پہ اس کی جعد مسلسل کے عکس سے 
دریا میں دھوبیوں کو نظر آئے پاٹ سانپ 
بنگلے میں جا کے خاک رہے کوئی مصحفیؔ 
کر دیں ہیں آدمی کا یہاں جی اچاٹ سانپ

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *