Iztirab

Iztirab

کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے

کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے 
پرچتا نہیں دل جہاں بیٹھیے 
میں دیکھا تمہیں خوب پردے میں اب 
ذرا اور ہو کر نہاں بیٹھیے 
کھڑے دیکھتے کیا ہو پھر آئیے 
کرم کیجیے مہرباں بیٹھیے 
ابھی سے کہاں اٹھ چلے کوئی دم 
غنیمت ہے صحبت میاں بیٹھیے 
ترے ہاتھوں سے اے جفائے فلک 
بتا تو ہی چھپ کر کہاں بیٹھیے 
بٹھایا مجھے تم نے زنداں میں خوب 
میں بیٹھا بس اب دوستاں بیٹھیے 
تم آنکھوں میں کیا بیٹھتے ہو مری 
بہ پہلوئے دل مثل جاں بیٹھیے 
نہیں بیٹھنے کی تمہارے وہ جا 
ادھر آئیے اب یہاں بیٹھیے 
نہ پہنچوں گے منزل کو تم مصحفیؔ 
گیا دور اب کارواں بیٹھیے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *