Iztirab

Iztirab

آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا

آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا 
لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا 
گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو کہتے 
یعنی وصال کی شب یا رب دراز کرنا 
اس کا سلام مجھ سے اب کیا ہے گردش رو 
طفلی میں میں سکھایا جس کو نماز کرنا 
ازبسکہ خون دل کا کھاتا ہے جوش ہر دم 
مشکل ہوا ہے ہم کو اخفائے راز کرنا 
بایک نیاز اس سے کیونکر کوئی بر آوے 
آتا ہو سو طرح سے جس کو کہ ناز کرنا 
کرتے ہیں چوٹ آخر یہ آہوان بدمست 
آنکھوں سے اس کی اے دل ٹک احتراز کرنا 
اے آہ اس کے دل میں تاثیر ہو تو جانوں 
ہے ورنہ کام کتنا پتھر گداز کرنا 
ہووے گی صبح روشن اک دم میں وصل کی شب 
بند قبا کو اپنے ظالم نہ باز کرنا 
اے مصحفیؔ ہیں دو چیز اب یادگار دوراں 
اس سے تو ناز کرنا مجھ سے نیاز کرنا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *